Saturday, November 1, 2014

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں جرم زنا کی بڑھتی رفتار:

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں جرم زنا کی بڑھتی رفتار:

مصنف : گھمنام

زنابالجبر یعنی انگلش میں rape ایک بہت ہی برا ، انسانیت سے گرا ہوا اور گھٹیا فعل ہے . کسی بھی معاشرے میں ایسے فعل کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ، مجھے یاد ہے جب انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ایک لڑکی کا ریپ بس میں ہوا تھا تو لوگوں کا رد عمل یہی تھا کہ مجرموں کو پھانسی دی جائے.ہر کسی نے مجرموں کو عبرت ناک سزا دینے کی تجاویز پیش کی تھی. آئیے دیکھتے ہے وہ ممالک جہاںزنابالجبر یعنی ریپ دنیا میں سب زیادہ ہوتے ہیں ،آج کل بی بی سی پاکستان میں کافی متحرک ہے. اگر آپ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر جائيں تو بہت سی سٹوریاں پڑھنے کو ملتی ہیں، زیادہ تر سوفٹ انداز میں لیکن منفی، کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ پاکستان کے سرکاری دفاتر خواتین کیلیے’غیرمحفوظ ہیں، اعدادوشمار جو بتائے گئے کہ چار برسوں میں جنسی ہراس کے تین ہزار سے زیادہ کیس مختلف اداروں کی اندرونی انکوائری کمیٹیوں کے پاس جا چکے ہیں۔ جن اداروں کی فہرست نشر کی گئی ان اداروں میں سرکاری دفاتر، یونیورسٹیاں، کثیرالقومی ادارے، اور ہسپتال شامل ہیں۔ خیر اچھے برے لوگ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، میں اس رپورٹ کو ردبھی نہیں کر رہا، ہو سکتا ہے ایسا ہوا ہو، یا ہوتا ہو گا، پاکستان کی آبادی کی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے. اور پاکستان کے سرکاری دفاتر میں ویسے اضافی ملازم بھی ملازمت کر رہے ہوتے ہیں، لیکن بی بی سی جس طرح اس کو مین اسٹریم میڈیا کی سٹوری بنا کر پیش کرتا ہے. اس پر تعجب کی بات ہے، اس سٹوری کا ٹارگٹنگ پائنٹ تھا " خواتین ’غیرمحفوظ" یعنی پاکستان میں خواتین کسی بھی لحاظ سے غیر محفوظ ہیں.لیکن بی بی سی  کبھی بھی یہ نہیں بتائے گا کہ پاکستان کم از کم ان ممالک سے بہت بہتر ہے ، پھر پاکستان میں ہونے ہر واقع کو بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا جاتا ،، ؟ ایسا کیوں . کچھ ممالک کی لسٹ میں بتا دیتا ہوں  آپ حیران ہو گے یہ دیکھ کر کہ اس لسٹ میں ترقی یافتہ ممالک سر فہرست ہیں ، 

نمبر ایک پر دنیا کی سپر پاور کا دعوے دار اور انسانیت کی فکر کرنے والا امریکا ، جی ہاں ،دنیا کی سپر پاور عصمت دری کی دوڑ میں پہلی پوزیشن پر ہے.دنیا کو اخلاقیات کا درس دینے والے خود ہی اخلاق سے گرے ہوۓ ہیں ، ایک ضرب المثل خوب صادق آتی ہے . " گھر میں آگ لگی ہے اور چلے دوسروں کے گھر چراغ جلانے " ہر 100سو زنابالجبر کے کیسوں کے تمام متاثرین میں 91 خواتین جبکہ 9 مرد ہے . امریکہ کے بیورو اف جسٹس کے شماریات کے مطابق عصمت دری کے متاثرین میں سے 91 فیصد خواتین ہیں اور اور 9 فیصد مرد ہیں. National Violence Against Women Survey کے مطابق ہر 6 امریکی عورتوں میں سے 1 اور ہر 33 امریکی مردوں میں سے ایک کو اپنی زندگی میں زنابالجبر کا سامنا کرنا ہوا ہے. ایک چوتھائی کالج کی عمر کی خواتین اس برے فعل کا شکار ہوئی ، جو 14 سال کی عمر سے لے کر 30 سال تک کی عمر کی عورتوں کو Sexual harassment یا زنابالجبر کا تجربہ ہوا ہے ،،،،تقریباً 90,000لوگوں نے امریکہ میں زنابالجبر کی رپورٹ درج کروائی ۔نیشنل کرائم وکسٹمائزیشن ،بیورو جسٹس کے تحت لئے گئے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 6.8%زنا بالجبر تو گینگ ریپ ہی تھے ۔ 

دنیا میں دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ ہے جس کو دنیا میں زنابالجبر کا دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے. سال 2012 کی رپورٹ مطابق 65،000 کیس سامنے آئے .جنوبی افریقہ کو دنیا میں سب سے زیادہ child اینڈ baby ریپ کے ممالک میں سے ایک ہے ، جرم ثابت ہونے پر سزا صرف دو سال ہے ، 

دنیا میں تیسرے نمبر سویڈن ہے. سویڈن یوروپی ممالک میں سے دنیا میں نمبر ایک پر ہے جہاں زنابالجبر ہر چار عورتوں میں سے ایک کو اپنی زندگی میں اس بد ترین فعل کا شکار ہوتی ہے ، 2009 ء میں سویڈن میں 15.700جنسی جرائم،کی اطلاع دی گی جس میں 5.940 عصمت دری یعنی ریپ کے وکٹم تھے. 2008، کے مقابلے میں 8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ، اور دن بدن اس کی شرح بڑھتی جا رہی ہے ،اپریل 2009 کی رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سال میں جنسی جرائم میں 58 فیصد ہوا ہے ، 

دنیا میں چوتھے نمبر پر انڈیا ہے جہاں ریپ خواتین کے خلاف سب سے زیادہ عام جرائم میں سے ایک ہے.انڈیا کے National Crime Records Bureau کے مطابق 2012 ء میں 24.923 عصمت دری کے مقدمات رپورٹ کیے گئے . مگر ماہرین کا خیال کہ ریپ کیس کی تعداد رپورٹڈ مقدمات سے کہیں زیادہ ہے ، 24.470 مقتول اپنے ہی والدین / خاندان، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوسرے جانتے والے افراد کے شکار ہوۓ .انڈیا میں ہر 22 منٹ میں کوئی نہ کوئی اس زیادتی کا شکار ہوتا ہے، 

دنیا میں پانچویں نمبر پر انگلینڈ ہے . برطانیہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے. جنوری 2013 میں وزارت انصاف (MoJ)، دفتر قومی اعداد و شمار (ONS) اور ہوم آفس نے مشترکہ طور پر سرکاری اعدادوشمار بلیٹن جاری کیا ہے جس کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں تقریبا ہر سال اوسط 85،000 خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں. ہر سال 400،000 سے زائد خواتین کو جنسی طور پرہراساں کیا جاتا ہے، ہر سال اوسط ہر پانچ عورتوں میں سے ایک کو 16 سال کی عمرسے جنسی تشدد سہنے کا تجربہ ہوتا ہے . اسی سال بی بی سی کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی میں 70 کے قریب انڈرگریجویٹ سٹوڈنٹس پر جنسی طور پر حملے کیے گئے ، 2000سے زیادہ سٹوڈنٹ نے یونیورسٹی کی خواتین گروپ اور یونیورسٹی کے اخبار، Varsity، کے سروے جواب میں جنسی طور پر ہراساں ہونے کی اپنی داستان سنائی . کسی کو جنسی طور پر جسم کو چھونے کا سامنا کرنا پڑا تو کسی کو unwelcome ٹچ کا ،کسی کو پنچنگ کا تو کسی کو جسمانی تشدد کا ، سروے میں جواب  دہندگان دو تہائی خواتین اور ایک تہائی لڑکے تھے.
 جہاں کم عمری میں بچے جنسی سرگرمیوں میں پیش پیش ، اور ناجائز بچے پیدا کر کے عالمی ریکارڈ بنا رہے ہیں  ، گھر میں آگ لگی ہے اور چلے دوسروں کے گھر چراغ جلانے، بی بی سی اور انگلینڈ کے وزیراعظم کو پاکستان کی ہی فکر کیوں لاحق ہے؟ کوئی دستاویزی فلم انگلینڈ کی عورتوں پر بھی تو بنائے ، ان کو بھی تو مظلوم پیش کرو .

دنیا میں چھٹا نمبر جرمنی ہے . 240،000 خواتین اب تک ایک اندازے کے مطابق زنابالجبر کی وجہ سے موت واقع ہوچکی ہے.جرمنی اس سال میں 6.507.394 کے اعداد و شمار کے ساتھ سب سے زیادہ زنابالجبر اور جنسی جرائم میں چھ نمبر پر ہے. جرمنی ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جا رہا ہے جبکہ انسانیت کے میدان میں پسماندہ ہو رہا ہے. 

دنیا میں ساتویں نمبر پر فرانس ہے جہاں 1980 کی دہائی تک زنا بالجبر کوئی جرم نہیں تھا .خواتین کے حقوق اور حفاظت کا قانون فرانس میں نسبتا حال ہی میں تقویت دی گی ہے .جنسی ہراساں کرنے کے حوالے سے قانون سازی 1992 ء میں منظور کیا گیا تھا اور اخلاقی طور پر ہراساں کرنے پر ایک بل 2002 میں منظور کیا گیا تھا. ایک سال گورنمنٹ اسٹڈیز کے مطابق ملک میں 75،000 عصمت دری کے کیس ہوتے ہیں .تقریبا 10 فیصد متاثرین نے شکایات درج کرائی.

دنیا میں آٹھویں نمبر پر کینیڈا ہے ، جہاں جسٹس انسٹی ٹیوٹ اف برٹش کولمبیا کے مطابق ہر 17 خواتین میں سے ایک زنا بالجبر جیسے فعل کا شکار ہوتی ہے ساتھ ساتھ 62 فیصد کو جسمانی طور پر زخمی بھی کیا گیا ہے ، 

دنیا میں نویں نمبر پر سری لنکا ہے جہاں 64.9فیصد rapists نے ایک سے زیادہ دفعہ کس نہ کسی کا ریپ کیا ہے ، 11.1فیصد ایسے جنہوں کم از کم چار یا اس زیادہ لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ، حتمی طور پر کل اعدادوشمار کا اندازہ لگانا مشکل ہے ، یو ۔این ملٹی کنٹری کے مردوں اور تشدد پر مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ 14.5%سری لنکن آدمیوں کے نمونوں سے معلوم ہوا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر عصمت دری کی ہے ۔. .

دسویں پر ایتھوپیا ہے ، اقوام متحدہ کے مطابق ایتھوپیا میں تقریبا 60 فیصد عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ، زنا بالجبر ایتھوپیا میں ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے. ایتھوپیا میں لڑکیوں کو اغوا کر کے شادی کرنے کی پریکٹس میں کافی بدنام ہے .اور اغوا کار دلہن کو تب تک چپھائے رکھے گا جب تک وہ حاملہ نہیں ہو جاتی ، اس کے علاوہ ایتھوپیا آرمی بھی عام شہریوں کے خلاف منظم عصمت دری کے ارتکاب کا الزام عائد کیا گیا ہے. 

میں یہ نہیں که رہا پاکستان میں رہنے والا ہر مرد دودھ کا دھلا ہے ، میں یہ بھی نہیں که رہا پاکستان میں عورتوں کو جنسی استحصال کا سامنا نہیں ہے ، لیکن جسطرح میڈیا پاکستان کو ٹوسٹنگ انداز میں پیش کر رہا ہے، اور سوفٹ انداز میں پاکستان اور اسلام کو ٹارگٹ کر رہا ہے اور مین اسٹریم میڈیا میں یہ تاثر دینے میں کوشاں ہے کہ پاکستان کی عورتیں لاچار، بیچاری ، بے بس ، زنجیروں میں جکڑی ہوئی، سپریشن کا شکار وغیرہ بتا کر تصویر کشی کر رہا ہے  یہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندا ہے. اور اگر پاکستان کے ریموٹ ایریا میں جب کسی جنسی استحصال کا واقع وقوع پذیر ہوتا ہے.تو پھر یہی نام نہاد ماڈرن گھر میں لگی آگ کا تو ذکر تو نہیں کرتے لیکن پاکستان میں سرورے شروع کر دیتے ہیں. ذرائع ابلاغ کی ہیرا پھیری سے جو امیج پاکستان اور اسلام کا ڈیمیج کرنے کوشش کی جا رہی ہے بحیثت پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں ، اور مغربی میڈیا اور پاکستان کے میڈیا کی ہر بات اور ہر سروے پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ، ان کا مقصد ہی قوم کا مورال تباہ کرنا ہے ، اور جس قوم کا مورال تباہ ہو جاتا وہ غلام بن جاتی ہے ، اب تک پاکستان کو غلام اسلئے نہیں بنایا جا سکا کیوں کہ قوم کا مورال آج بھی گرا نہیں ، اتنے تناؤ کے باوجود عوام اپنی زندگی اپنے طریقہ سے جی رہی ہے ، الله ہمارے پاکستان کو زندہ آباد رکھے 

آپ ہی اپنی اداؤں پر غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

No comments:

Post a Comment