Wednesday, June 25, 2014

گھر میں آگ لگی ہے اور چلے دوسروں کے گھر چراغ جلانے . بی بی سی اردو

گھر میں آگ لگی ہے اور چلے دوسروں کے گھر چراغ جلانے . بی بی سی اردو..

مصنف : گھمنام

آج کل بی بی سی پاکستان میں کافی متحرک ہے. اگر آپ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر جائيں تو بہت سی سٹوریاں پڑھنے کو ملتی ہیں، زیادہ تر سوفٹ انداز میں لیکن منفی، کچھ دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ پاکستان کے سرکاری دفاتر خواتین کیلیے’غیرمحفوظ ہیں، اعدادوشمار جو بتائے گئے کہ چار برسوں میں جنسی ہراس کے تین ہزار سے زیادہ کیس مختلف اداروں کی اندرونی انکوائری کمیٹیوں کے پاس جا چکے ہیں۔ جن اداروں کی فہرست نشر کی گئی ان اداروں میں سرکاری دفاتر، یونیورسٹیاں، کثیرالقومی ادارے، اور ہسپتال شامل ہیں۔ خیر اچھے برے لوگ پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، میں اس رپورٹ کو ردبھی نہیں کر رہا، ہو سکتا ہے ایسا ہوا ہو، یا ہوتا ہو گا، پاکستان کی آبادی کی 22 کروڑ کے لگ بھگ ہے. اور پاکستان کے سرکاری دفاتر میں ویسے اضافی ملازم بھی ملازمت کر رہے ہوتے ہیں، لیکن بی بی سی جس طرح اس کو مین اسٹریم میڈیا کی سٹوری بنا کر پیش کرتا ہے. اس پر تعجب کی بات ہے، اس سٹوری کا ٹارگٹنگ پائنٹ تھا " خواتین ’غیرمحفوظ" یعنی پاکستان میں خواتین کسی بھی لحاظ سے غیر محفوظ ہیں.

بہرحال انگلینڈ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بائیسواں ملک ہے جبکہ پاکستان چٹھا ، تھوڑے اعدادوشمار میں انگلینڈ کے بتا دیتا ہوں، انگلینڈ اور ویلز میں تقریبا ہر سال اوسط 85،000 خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں. ہر سال 400،000 سے زائد خواتین کو جنسی طور پرہراساں کیا جاتا ہے، ہر سال اوسط ہر پانچ عورتوں میں سے ایک کو 16 سال کی عمرسے جنسی تشدد سہنے کا تجربہ ہوتا ہے ، جہاں کم عمری میں بچے جنسی سرگرمیوں میں پیش پیش ، اور ناجائز بچے پیدا کر کے عالمی ریکارڈ بنا رہے ہے ، گھر میں آگ لگی ہے اور چلے دوسروں کے گھر چراغ جلانے، بی بی سی اور انگلینڈ کے وزیراعظم کو پاکستان کی ہی فکر کیوں لاحق ہے؟ کوئی دستاویزی فلم انگلینڈ کی عورتوں پر بھی تو بنائے ، ان کو بھی تو مظلوم پیش کرو . اور تو اورانگلینڈ کے جامعہ مدرسہ کیمبرج یونیورسٹی میں 70 کے قریب انڈرگریجویٹ سٹوڈنٹس پر جنسی طور پر حملے کیے گئے ، 2000سے زیادہ سٹوڈنٹ نے یونیورسٹی کی خواتین گروپ اور یونیورسٹی کے اخبار، Varsity، کے سروے جواب میں جنسی طور پر ہراساں ہونے کی اپنی داستان سنائی . کسی کو جنسی طور پر جسم کو چھونے کا سامنا کرنا پڑا تو کسی کو unwelcome ٹچ کا ،کسی کو پنچنگ کا تو کسی کو جسمانی تشدد کا ، سروے میں جواب دہندگان دو تہائی خواتین اور ایک تہائی لڑکے تھے. یونیورسٹی میں جنسی استحصال اپنے عروج پر ہے ... ہر نئے آنے والے سٹوڈنٹ کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ، سمجھ لو ویلکم ٹیسٹ یا انٹری ٹیسٹ ہے.

میں یہ نہیں که رہا پاکستان میں رہنے والا ہر مرد دودھ کا دھلا ہے ، میں یہ بھی نہیں که رہا پاکستان میں عورتوں کو جنسی استحصال کا سامنا نہیں ہے ، لیکن جسطرح میڈیا پاکستان کو ٹوسٹنگ انداز میں پیش کر رہا ہے، اور سوفٹ انداز میں پاکستان اور اسلام کو ٹارگٹ کر رہا ہے اور مین اسٹریم میڈیا میں یہ تاثر دینے میں کوشاں ہے کہ پاکستان کی عورتیں لاچار، بیچاری ، بے بس ، زنجیروں میں جکڑی ہوئی، سپریشن کا شکار وغیرہ یہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندا ہے. اور اگر پاکستان کے ریموٹ ایریا میں جب کسی جنسی استحصال کا واقع وقوع پذیر ہوتا ہے.تو پھر یہی نام نہاد ماڈرن گھر میں لگی آگ کا تو ذکر تو نہیں کرتے لیکن پاکستان میں سرورے شروع کر دیتے ہیں. ذرائع ابلاغ کی ہیرا پھیری سے جو امیج پاکستان اور اسلام کا ڈیمیج کرنے کوشش کی جا رہی ہے بحیثت پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں ، اور مغربی میڈیا اور پاکستان کے میڈیا کی ہر بات اور ہر سروے پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ، ان کا مقصد ہی قوم کا مورال تباہ کرنا ہے ، اور جس قوم کا مورال تباہ ہو جاتا وہ غلام بن جاتی ہے ، اب تک پاکستان کو غلام اسلئے نہیں بنایا جا سکا کیوں کہ قوم کا مورال آج بھی گرا نہیں ، اتنے تناؤ کے باوجود عوام اپنی زندگی اپنے طریقہ سے جی رہی ہے ، الله ہمارے پاکستان کو زندہ آباد رکھے ،آمین !

No comments:

Post a Comment